اسرائیلی فوج مکمل طاقت کے ساتھ غزہ میں داخل ہوگی ، نیتن یاہو کا اعلان

اسرائیلی فوج مکمل طاقت کے ساتھ غزہ میں داخل ہوگی، نیتن یاہو کا اعلان

تل ابیب (37 نیوز) – مکمل تفصیل:

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک سخت اور جارحانہ بیان میں واضح کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں اپنی فوجی کارروائی کو آئندہ دنوں میں بھرپور طاقت کے ساتھ وسعت دے گا۔ ان کے دفتر سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج اب کسی بھی قسم کی نرمی یا محدود حکمتِ عملی سے گریز کرے گی اور مکمل فوجی طاقت کے ساتھ غزہ میں داخل ہو کر حماس کو فیصلہ کن شکست دینے کے لیے تیار ہے۔

وزیرِ اعظم نے کہا:
"ہم مکمل طاقت کے ساتھ آپریشن مکمل کرنے جا رہے ہیں، اور اس کا مطلب ہے حماس کو شکست دینا، اس کے تمام ٹھکانوں کو تباہ کرنا، اس کی قیادت کو ختم کرنا اور غزہ میں اس کے عسکری اثر و رسوخ کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا۔"

نیتن یاہو نے مزید کہا کہ یہ مرحلہ صرف حماس کے خلاف نہیں بلکہ اسرائیل کی سلامتی کو مستقل طور پر یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ ان کے بقول، "ہم ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں آدھے اقدامات یا محدود حملے اب کارآمد نہیں رہیں گے۔ اسرائیل اپنی عوام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا، چاہے اس کے لیے کتنی ہی قیمت کیوں نہ چکانا پڑے۔"

اس بیان کے بعد خطے میں کشیدگی میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، جبکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مختلف ممالک اور تنظیمیں صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بارہا اسرائیل اور فلسطینی تنظیموں سے جنگ بندی کی اپیل کر چکے ہیں، مگر اسرائیلی قیادت کی حالیہ بیان بازی سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوری طور پر کسی سیاسی حل کی امید کم ہے۔

ادھر فلسطینی علاقوں میں پہلے ہی انسانی بحران کی صورتحال ہے، جہاں شدید بمباری، غذائی قلت، اور بنیادی سہولیات کی کمی نے حالات کو ابتر کر دیا ہے۔ غزہ میں مقیم شہریوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے، اور ہزاروں افراد محفوظ مقامات کی تلاش میں نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔

نیتن یاہو کے اس بیان کو مبصرین آئندہ بڑے پیمانے پر زمینی آپریشن کی پیش بندی قرار دے رہے ہیں، جو نہ صرف غزہ بلکہ پورے خطے کے لیے ایک نازک اور خطرناک موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
العربیہ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے تازہ ترین بیان میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری جنگ کو فی الحال روکنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ مکمل طور پر جاری رہے گی، البتہ انسانی بنیادوں پر وقتی جنگ بندی ممکن ہے تاکہ مخصوص حالات میں انسانی امداد کی فراہمی یا قیدیوں کے تبادلے جیسے امور سرانجام دیے جا سکیں۔

نیتن یاہو نے اپنے بیان میں کہا:
"ہم جنگ جاری رکھیں گے جب تک اپنے تمام مقاصد حاصل نہیں کر لیتے۔ وقتی جنگ بندی صرف مخصوص انسانی یا سٹریٹیجک مقاصد کے لیے ہو سکتی ہے، لیکن مجموعی طور پر جنگ رکنے والی نہیں۔"

اس بیان نے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے کہ اسرائیل مکمل عزم کے ساتھ غزہ میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے گا، اور حماس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی تک پیچھے نہیں ہٹے گا۔

نیتن یاہو نے اس کے ساتھ ہی ایک اور اہم انکشاف کیا کہ ان کی حکومت ان ممالک سے رابطے میں ہے جو غزہ کے شہریوں کو پناہ دینے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، اسرائیل ایسے بین الاقوامی شراکت داروں کی تلاش میں ہے جو غزہ کے رہائشیوں کو "عارضی یا مستقل بنیادوں پر" جگہ فراہم کریں تاکہ انہیں جنگی حالات سے نکالا جا سکے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ بیان نہ صرف اسرائیلی حکمت عملی میں ایک نئی جہت کا عکاس ہے بلکہ یہ خدشات بھی بڑھا رہا ہے کہ آیا اسرائیل غزہ میں بڑے پیمانے پر آبادی کی منتقلی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اسے بین الاقوامی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزی اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس پر عالمی سطح پر شدید ردعمل آنے کا امکان ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے پہلے ہی اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ میں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، بنیادی سہولیات ختم ہو چکی ہیں، اور غزہ کی پٹی میں خوراک، ادویات اور صاف پانی کی شدید قلت ہے۔

اس تناظر میں نیتن یاہو کے حالیہ بیانات کو نہایت اہم اور دور رس نتائج کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ ان بیانات نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ اسرائیل نہ صرف عسکری سطح پر بلکہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی ایک وسیع تر منصوبے پر عمل پیرا ہے، جس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ پر مرتب ہو سکتے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے حالیہ بیان میں انکشاف کیا ہے کہ ان کی حکومت نے ایک انتظامیہ قائم کر دی ہے جس کا بنیادی مقصد غزہ کے شہریوں کو جنگ زدہ علاقے سے نکلنے کا راستہ فراہم کرنا ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیل اس وقت بین الاقوامی سطح پر ایسے ممالک کی تلاش میں ہے جو غزہ کے متاثرہ شہریوں کو پناہ دینے پر آمادہ ہوں، تاکہ وہ محفوظ مقامات پر منتقل ہو سکیں۔

نیتن یاہو نے کہا:
"ہم نے ایک انتظامیہ قائم کر دی ہے تاکہ غزہ کے شہریوں کو نکلنے کا راستہ دیا جا سکے، لیکن اس کے لیے ہمیں وہ ممالک درکار ہیں جو انہیں قبول کریں۔"

وزیرِ اعظم کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں جاری عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ایک وسیع تر منصوبے پر عمل پیرا ہے، جو ممکنہ طور پر آبادی کی منتقلی یا بے دخلی پر منتج ہو سکتا ہے۔ نیتن یاہو نے مزید دعویٰ کیا کہ اگر راستہ فراہم کیا جائے تو:
"پچاس فیصد سے زیادہ لوگ غزہ چھوڑ دیں گے۔"

یہ بیان عالمی سطح پر شدید بحث کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ اسرائیل ممکنہ طور پر غزہ کی آبادی کو زبردستی بے دخل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق، جنگ کے دوران شہریوں کی جبری نقل مکانی ایک سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کی جاتی ہے۔

نیتن یاہو کے اس موقف پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے شہریوں کو ان کے گھروں اور سرزمین سے نکالنے کی کسی بھی کوشش کو "جبری بے دخلی" قرار دیا جائے گا، اور یہ عالمی ضمیر کے لیے ناقابلِ قبول ہو گا۔

ادھر فلسطینی قیادت اور عرب دنیا کی جانب سے بھی سخت ردعمل سامنے آ سکتا ہے، کیونکہ یہ اقدام فلسطینیوں کی تاریخی جدوجہد اور زمین سے جڑے حقِ واپسی کے اصولوں کے خلاف تصور کیا جائے گا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق، نیتن یاہو کے ان بیانات سے ایک واضح پیغام ملتا ہے کہ اسرائیل صرف جنگی فتح پر اکتفا نہیں کر رہا بلکہ غزہ کی سماجی و جغرافیائی ساخت کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ایک نہایت حساس اور خطرناک پہلو ہے جس کے علاقائی اور عالمی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی برادری، اقوام متحدہ اور متاثرہ ممالک نیتن یاہو کے اس اعلان پر کیا مؤقف اختیار کرتے ہیں اور آیا وہ اس ممکنہ بڑے انسانی بحران کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدامات کرتے ہیں یا نہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

پاکستان نے بھارت کا ایک اور طیارہ مار گرایا

جنگ دوبارہ چھڑ سکتی ہے

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اڈیالہ جیل سے رہا