پراسیکیوشن کیس ثابت کرنے میں ناکام، سزائے موت کا مجرم 12 سال بعد بری
پراسیکیوشن کیس ثابت کرنے میں ناکام، سزائے موت کا مجرم 12 سال بعد بری
لاہور: دوہرے قتل کے مقدمے میں سزائے موت پانے والا غلام عباس 12 سال بعد بری، عدالت نے سزا کالعدم قرار دے دی
(37 نیوز)
لاہور ہائیکورٹ نے ایک اہم فیصلے میں دوہرے قتل کے مقدمے میں سزا پانے والے غلام عباس کو 12 سال بعد بری کر دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پراسیکیوشن غلام عباس کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ مقدمے میں شواہد اور گواہوں کی کمی کے باعث انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس عبہر گل خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ ملزم کے وکیل ایڈووکیٹ عثمان تسنیم نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ٹرائل کورٹ نے کیس کے حقائق کا درست انداز میں جائزہ نہیں لیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ مقدمے کی ایف آئی آر تاخیر سے درج ہوئی جبکہ پوسٹمارٹم بھی غیر معمولی تاخیر سے کیا گیا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ غلام عباس کا مقدمے سے کوئی تعلق نہیں بنتا، اس کے خلاف الزامات مفروضوں پر مبنی ہیں۔
پراسیکیوشن کی جانب سے اپیل کی مخالفت کی گئی اور مؤقف اختیار کیا گیا کہ غلام عباس کو 2013 میں سحرش اور کامران کے قتل کے مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔ 2020 میں ٹرائل کورٹ نے اسے سزائے موت سنائی تھی اور اس کے خلاف شواہد بھی عدالت میں پیش کیے گئے تھے۔
تاہم عدالت نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپیل کو منظور کر لیا اور ٹرائل کورٹ کی جانب سے سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے کر غلام عباس کو باعزت بری کر دیا۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد غلام عباس کی 12 سالہ قید کا اختتام ہوا اور اسے رہائی نصیب ہوئی۔
یہ فیصلہ نہ صرف عدالتی نظام میں شفافیت کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی یاد دہانی کراتا ہے کہ انصاف کی فراہمی کے لیے مضبوط شواہد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کس قدر اہم ہیں۔

Comments
Post a Comment